Sunday, October 14, 2012

بھوک کم کم ہے پیاس کم کم ہے

بھوک کم کم ہے پیاس کم کم ہے
اب توجینے کی آس کم کم ہے

سانس لیتے تھے ہجر موسم میں
اب یہ موسم بھی راس کم کم ہے

تتلیاں اڑ گءیں یہ غم لے کر
اب کے پھولوں میں باس کم کم ہے

دل جو ملنے کی ضد نہیں کرتا
اب یہ رہتا اداس کم کم ہے

اپنی حالت اسے بتا نہ سکوں
وہ جو چہرہ شناس کم کم ہے

گام گام خواہشیں

گام گام خواہشیں
ناتمام خواہشیں

ہر خوشی کی موت ہیں
بے لگام خواہشیں

لے ہی آءیں آخرش
زیرِ دام خواہشیں

ہوش میں نہیں ہوں میں
صبح و شام خواہشیں

کاٹتی ہیں روح کو
بے نیام خواہشیں