Thursday, January 14, 2010

انجان لگ رہا ہے مرے غم سے گھر تمام

انجان لگ رہا ہے مرے غم سے گھر تمام
حالاں کہ میرے اپنے ہیں دیوار و در تمام

صیاد سے قفس میں بھی کوئی گلہ نہیں
میں نے خود اپنے ہاتھ سے کاٹے ہیں پر تمام

کب سے بلا رہا ہوں مدد کے لیے انہیں
کس سوچ میں پڑے ہیں مرے چارہ گر تمام

جتنے بھی معتبر تھے وہ نامعتبر ہوئے
رہزن بنے ہوئے ہیں یہاں راہبر تمام

دل سے نہ جائے وہم تو کچھ فائدہ نہیں
ہوتے نہیں ہیں شکوے گلے عمر بھر تمام

جب سے میرے یار دشمن ہو گئے

جب سے میرے یار دشمن ہو گئے
 یہ در و دیوار دشمن ہو گئے

ہو گئی خاموشیوں سے دوستی
صاحبِ گفتار دشمن ہو گئے

پھوٹ کر رونے لگا کِھلتا گلاب
ساتھ پل کر‘ خار دشمن ہو گئے

آخرت کی فکر کرنے والوں کے
یونہی دنیا دار دشمن ہو گئے

دیکھ کر خوشحال اک کم بخت کو
سب کے سب بیمار دشمن ہو گئے

اس کہانی کو بدلنا تھا مجھے
جس کے سب کردار دشمن ہو گئے

غیر تو ہیں‌غیر ان کی چھوڑئیے
آپ بھی سرکار دشمن ہو گئے

Sunday, January 10, 2010

شناور ڈوب جاتا ہے

خلا میں‌ غور سے دیکھوں
تو اک تصویر بنتی ہے
اور اس تصویر کا چہرہ
ترے چہرے سے ملتا ہے
وہی آنکھیں‘ وہی رنگت
وہی ہیں‌ خال و خد سارے
مری آنکھوں سے دیکھے تو
تجھے اس عکس کے چہرے پہ
اک تل بھی دکھائی دے
جو بالکل تیرے چہرے پہ
سجے اُس تل کے جیسا ہے
جو گہرا ہےبہت گہرا
سمندر سے بھی گہرا ہے
کہ اس گہرائی میں اکثر
شناور ڈوب جاتا ہے

پتھروں سے واسطہ ہونا ہی تھا

 پتھروں سے واسطہ ہونا ہی تھا
دل شکستہ آئنہ ہونا ہی تھا

میں بھی اس کو پوجتا تھا رات دن
آخر اس بت کو خدا ہونا ہی تھا

مسندوں پر ہو گئے قابض یزید
اس نگر کو کربلا ہونا ہی تھا

 جلد بازی میں کِیا تھا فیصلہ
سو غلط وہ فیصلہ ہونا ہی تھا

 اب مجھے افسوس کیوں رہنے لگا
وہ ملا تھا تو جدا ہونا ہی تھا

 تیرا چہرہ جب نہیں تھا سامنے
آئنوں کو بے صدا ہونا ہی تھا

ہو درد اور درد کا درمان بھی نہ ہو

ہو درد اور درد کا درمان بھی نہ ہو
تو سامنے رہے تری پہچان بھی نہ ہو

مانا کہ عمر بھر تو مرا ہو نہیں سکا
ایسا بھی کیا کہ تو مرا مہمان بھی نہ ہو

آغاز اس سفر کا کریں آؤ مل کے ہم
جس میں کہیں بچھڑنے کا امکان بھی نہ ہو

ہو جائے جو بھی ہونا ہے ایسا نہ ہو کبھی
اس دل میں تیرے ملنے کا ارمان بھی نہ ہو

یاں ہر قدم پہ خوف ہے یاں ہر قدم پہ غم
دل کے نگر کا راستہ سنسان بھی نہ ہو

ہر بار پوچھتا ہے کہ آخر ہے بات کیا
ہمدم کسی کا اتنا تو انجان بھی نہ ہو

یہ قفلِ دل کلیدِ محبت سے کھول دو
ایسا نہ ہو کہ پھر کہیں عمران بھی نہ ہو

بھولتا ہوں اسے یاد آئے مگر بول میں کیا کروں

بھولتا ہوں اسے یاد آئے مگر بول میں کیا کروں
جینے دیتی نہیں اس کی پہلی نظر بول میں کیا کروں

تیرگی خوب ہے، کوئی ہمدم نہیں، کوئی رہبر نہیں
مجھ کو درپیش ہے ایک لمبا سفر بول میں کیا کروں

خود سے ہی بھاگ کر میں کہاں جاؤں گا، یونہی مر جاؤں گا
کوئی صورت بھی آتی نہیں اب نظر بول میں کیا کروں‌

میری تنہائی نے مجھ کو رسوا کیا، گھر بھی زندان ہے
مجھ پہ ہنسنے لگے اب تو دیوار و در بول میں کیا کروں

اڑ بھی سکتا نہیں، آگ ایسی لگی، کس کو الزام دوں
دھیرے دھیرے جلے ہیں مرے بال و پر بول میں کیا کروں

تو مرا ہو گیا، میں ترا ہو گیا، اب کوئی غم نہیں
پھر بھی دل میں بچھڑنے کا رہتا ہے ڈر بول میں کیا کروں

کچھ تو اے یار علاجِ غمِ تنہائی ہو

کچھ تو اے یار علاجِ غمِ تنہائی ہو
بات اتنی بھی نہ بڑھ جائے کہ رسوائی ہو

ڈوبنے والے تو آنکھوں سے بھی کب نکلے ہیں
‌ڈوبنے کے لیے لازم نہیں گہرائی ہو

جس نے بھی مجھ کو تماشا سا بنا رکھا ہے
اب ضروری ہے وہی شخص تماشائی ہو

میں تجھے جیت بھی تحفے میں نہیں دے سکتا
چاہتا یہ بھی نہیں ہوں تری پسپائی ہو

آج تو بزم میں ہر آنکھ تھی پرنم جیسے
داستاں میری کسی نے یہاں دہرائی ہو

کوئی انجان نہ ہو شہرِ محبت کا مکیں
کاش ہر دل کی ہر اک دل سے شناسائی ہو

یوں گزر جاتا ہے عمران ترے کوچے سے
تیرا واقف نہ ہو جیسے کوئی سودائی ہو

میں ہوں مجنوں مرا انداز زمانے والا

میں ہوں مجنوں مرا انداز زمانے والا
تیری نگری میں تو پتھر نہیں کھانے والا

تو نے دیکھا ہی نہیں ساتھ مرے چل کے کبھی
میں ہوں تنہائی کا بھی ساتھ نبھانے والا

مجھ کو تم دشتِ تحیر میں نہ چھوڑو تنہا
خوف طاری ہے عجب دل کو ڈرانے والا

خوف آتا ہے مجھے اپنی ہی تنہائی سے
روٹھ جاتا ہے کوئی مجھ کو منانے والا

دل وہ شیشہ کہ ترا عکس لیے پھرتا ہے
روز آتا ہے کوئی اس کو مٹانے والا

اس کی ہر بات سر آنکھوں پہ لیے پھرتا ہوں
مجھ کو اچھا بھی تو لگتا ہے رلانے والا

اس قدر اجنبی انداز سے کیوں دیکھتا ہے
میں وہی ہوں ترا کردار فسانے والا

ہر قدم سوچ سمجھ کر ہی اٹھانا اے دل
تیرا رہبر تو نہیں راہ بتانے والا

چاہے جتنی بھی سفارش کرو اس کی عمران
میں تری باتوں میں ہرگز نہیں آنے والا

جو تری قربتوں کو پاتا ہے

جو تری قربتوں کو پاتا ہے
اس کو مرنے میں‌لطف آتا ہے

میں جسے آشنا سمجھتا ہوں
دور بیٹھا وہ مسکراتا ہے

میں تو ممنون ہوں زمانے کا
سیکھ لیتا ہوں جو سکھاتا ہے

میں ہی سنتا نہیں صدا اس کی
روز کوئی مجھے بلاتا ہے

تیرگی دربدر ہے گلیوں میں
دیکھیے کون گھر جلاتا ہے

تو نے منزل تو دیکھ لی عمران
اب تجھے راستہ بلاتا ہے

لو پہن لی پاؤں میں زنجیر اب

لو پہن لی پاؤں میں زنجیر اب
اور کیا دکھلائے گی تقدیر اب

خود ہی چل کر آگیا زندان تک
کیا کرو گے خواب کی تعبیر اب

اے مسیحا! جو ترے باتوں میں تھی
دل تلک پہنچی ہے وہ تاثیر اب

ہائے اک آہٹ نے پھر چونکا دیا
بولنے والی تھی وہ تصویر اب

ٹھیک میرے دل ہی پر آکر لگے
آخری ترکش میں ہے جو تیر اب

اور کچھ پانے کی حسرت ہی نہیں
‌مل گئی ہے پیار کی جاگیر اب