Thursday, January 14, 2010

انجان لگ رہا ہے مرے غم سے گھر تمام

انجان لگ رہا ہے مرے غم سے گھر تمام
حالاں کہ میرے اپنے ہیں دیوار و در تمام

صیاد سے قفس میں بھی کوئی گلہ نہیں
میں نے خود اپنے ہاتھ سے کاٹے ہیں پر تمام

کب سے بلا رہا ہوں مدد کے لیے انہیں
کس سوچ میں پڑے ہیں مرے چارہ گر تمام

جتنے بھی معتبر تھے وہ نامعتبر ہوئے
رہزن بنے ہوئے ہیں یہاں راہبر تمام

دل سے نہ جائے وہم تو کچھ فائدہ نہیں
ہوتے نہیں ہیں شکوے گلے عمر بھر تمام

جب سے میرے یار دشمن ہو گئے

جب سے میرے یار دشمن ہو گئے
 یہ در و دیوار دشمن ہو گئے

ہو گئی خاموشیوں سے دوستی
صاحبِ گفتار دشمن ہو گئے

پھوٹ کر رونے لگا کِھلتا گلاب
ساتھ پل کر‘ خار دشمن ہو گئے

آخرت کی فکر کرنے والوں کے
یونہی دنیا دار دشمن ہو گئے

دیکھ کر خوشحال اک کم بخت کو
سب کے سب بیمار دشمن ہو گئے

اس کہانی کو بدلنا تھا مجھے
جس کے سب کردار دشمن ہو گئے

غیر تو ہیں‌غیر ان کی چھوڑئیے
آپ بھی سرکار دشمن ہو گئے