Thursday, January 14, 2010

جب سے میرے یار دشمن ہو گئے

جب سے میرے یار دشمن ہو گئے
 یہ در و دیوار دشمن ہو گئے

ہو گئی خاموشیوں سے دوستی
صاحبِ گفتار دشمن ہو گئے

پھوٹ کر رونے لگا کِھلتا گلاب
ساتھ پل کر‘ خار دشمن ہو گئے

آخرت کی فکر کرنے والوں کے
یونہی دنیا دار دشمن ہو گئے

دیکھ کر خوشحال اک کم بخت کو
سب کے سب بیمار دشمن ہو گئے

اس کہانی کو بدلنا تھا مجھے
جس کے سب کردار دشمن ہو گئے

غیر تو ہیں‌غیر ان کی چھوڑئیے
آپ بھی سرکار دشمن ہو گئے

No comments:

Post a Comment